Circle Image

فیصل رضوان Faisal Rizwan

@faisalrizwan604

تعلق بناؤ کلامِ خدا سے
نتائج ملیں گے تمہیں پھر جدا سے
دکھا دیں ہمیں بھی وہ پیارا مدینہ
یہی التجا اب ہے نورالہدٰا سے

0
59
جسم میں جو یہ جان باقی ہے
کچھ ابھی امتحان باقی ہے
وصل کی شب تو ڈھل چکی لیکن
ہجر کا اک جہان باقی ہے
جان جانی تھی جا چکی کب کی
دی مگر یوں کہ شان باقی ہے

0
93
چھپائے لاکھ کوئی راز دل کے
یہ آنکھیں ہیں جو سب کچھ بولتی ہیں
گئے ہو جب سے آنکھیں چار کر کے
مری آنکھیں تمہی کو ڈھونڈتی ہیں
حسیناؤں سے رب محفوظ رکّھے
جو دیوانوں کے دل سے کھیلتی ہیں

0
92
کیسا روگ لگا بیٹھے ہیں
سارے شوق بھلا بیٹھے ہیں
دل لینے کی اک خواہش میں
دل اپنا بھی گنوا بیٹھے ہیں
پہرے بہت تھے دل پہ لگائے
پھر بھی دھوکا بیٹھے ہیں

0
50
ہجر غم بےحساب ہوں جیسے
عشق میں انقلاب ہوں جیسے
تیری نظریں کمال ہیں جاناں
ہونٹ تیرے گلاب ہوں جیسے
لوگ بڑھ چڑھ کے بولتے ہیں یوں
جھوٹ سارے ثواب ہوں جیسے

0
72
دے گیا کیسے خواب آنکھوں کو
کر کے وقفِ عزاب آنکھوں کو
دیکھ کر لوگ مر بھی جاتے ہیں
ڈھانپ رکھیے جناب آنکھوں کو
ناچتا کون پھر اشاروں پر
گر نہ ملتا شباب آنکھوں کو

0
25
تیری یادیں سنھبال رکھتے ہیں
دل کو باتوں سے ٹال رکھتے ہیں
ہجر میں ہم کمال رکھتے ہیں
مفت کا روگ پال رکھتے ہیں
ایسے دشمن سے خوف آتا ہے
دوستی میں جو چال رکھتے ہیں

0
49
اکیلا چلا تھا اکیلا کھڑا ہوں
کمر بستہ تھا تو, ترا قافلہ تھا
بچھڑ کر مجھے بھی سکوں مل گیا ہے
محبت سے مجھ کو بڑا واسطہ تھا
ملا کیوں رقیبوں میں تو بھی ستم گر
مجھے اک ترا ہی تو بس آسرا تھا

0
99
اب وہ اچھا کہ برا لگتا ہے
اتنا کافی ہے, مرا لگتا ہے
کچھ تو ٹوٹا ہے مرے اندرسے
دل میں اک شوربپا لگتا ہے
کونسا مرحلہء عشق ہے یہ
دلربا , دل کو خدا لگتا ہے

0
46
وقت ملا خفا خفا
مجھ سے رہا خدا جدا
جان وہیں نکل گئی
اس نے یہی کہا جدا
جان پہ آ بنی نہ اب
کس نے کہا رہو خفا

0
27
کسی سے کبھی دل لگایا نہیں تھا
محبت کو شیوہ بنایا نہیں تھا
ستایا بہت میں نے دنیا کو لیکن
ستائے ہوؤں کو ستایا نہیں تھا
سدا کھیلتا ہی رہا میں دلوں سے
مگر دل میں کوئی بسایا نہیں تھا

0
34
جان کی جان لینی ہے ہم نے
بات یہ ٹھان لینی ہے ہم نے
وہ کرے جو کبھی نصیحت بھی
سن کے کب مان لینی ہے ہم نے
ہو کوئی بھی ,کہیں پہ منزل اب
راہ ویران لینی ہے ہم نے

0
30
ترے ساتھ جو بھی صنم بیٹھتے ہیں
زمیں پر تو وہ لوگ کم بیٹھتے ہیں
نہیں بیٹھتے جب مرے ساتھ تم تو
مرے ساتھ درد و الم بیٹھتے ہیں
ہمیں خانہ ویرانیوں کا سبب ہیں
نہ تم بیٹھتے ہو نہ ہم بیٹھتے ہیں

0
35
نا ابتداء تھا نہ انتہا تھا
اک شخص مرے لیے خدا تھا
کچھ پاس اسے نہیں تھا اسکا
اک رشتہ جو درمیاں رہا تھا
یکجان دو جسم ہو رہے تھے
احساس مگر جدا جدا تھا

0
94
حقیقت ہے الفت حکایت نہیں ہے
مگر اب تو کچھ اس میں راحت نہیں ہے
ذرا تم نگاہیں اٹھا کر تو دیکھو
اگر دیکھنے میں خباثت نہیں ہے
نگاہوں سے ایسی ہمیں تم نہ دیکھو
مچلتا ہے دل گو محبت نہیں ہے

0
42
نہ اقرار آیا نہ انکار واں سے
مکرنا پڑا پھر ہمیں بھی زباں سے
چلا جو گیا ہے مرا دل جلا کر
اسے ڈھونڈ لاؤں میں اب پھر کہاں سے
کوئی بھی جچا نہ ترے بعد دل کو
ہے شکوہ یہی مالکِ دو جہاں سے

0
34
سب خانہ خراب ہو چکا ہے
اب پیار ,سراب ہو چکا ہے
جب ختم یہ باب ہو چکا ہے
تب قصہ کتاب ہو چکا ہے
اب لذَّتِ لب جدا ملے گی
اب ہونٹ شراب ہو چکا ہے

0
53
اسے اب کوئی دو سرا مل گیا ہے
سخن ورسخن آ شنا مل گیا ہے
نہ پوچھوکہ مجھ کو یہ کیا مل گیا ہے
صنم کی ادا سے خدا مل گیا ہے
محبت میں مجھ کو دغا ہی ملی پر
تجھے تو صنم با وفا مل گیا ہے

0
32
محمد کے در پر دعا کر رہے ہیں
عطا ہو عطا التجا کر رہے ہیں
خطا کار ہیں. ہم گنہگار ہیں ہم
ہدایت محمد عطا کر رہے ہیں
مدد المدد ,المدد یا محمد
گنہگار آہ و بُکا کر رہے ہیں

0
47