مل سکے گا کوئی مخلصوں کی طرح
ڈھونڈنا ہے عبث پاگلوں کی طرح
دل کے ساحل پہ دیکھوں میں جس اَور بھی
یادیں بکھری پڑیں سیپیوں کی طرح
روٹھ کر وہ گیا تو نہ کچھ کر سکے
اُس کو تکتے رہے باولوں کی طرح
نامِ اللہ سے بڑھ کے خزانہ نہیں
دل میں رکھ لیں اسے دھڑکنوں کی طرح
وہ سراپا ہے نوروں کا ڈھالا ہوا
راہ دکھلائے وہ مشعلوں کی طرح
زندگی کا ہے سچ یہ جو سمجھو اگر
"جس کو پڑھتے ہو تم ناولوں کی طرح"
دل میں رکھنا نہیں بغض و کینہ کبھی
آو مل لو گلے دوستوں کی طرح
ایک مدت سے آنکھیں بہت خشک تھیں
آج برسی ہیں یہ بادلوں کی طرح
بات نکتے کی ہو گر تو پھر بات ہو
بحث کر نا عبث جاہلوں کی طرح

44