روگ سینے میں اپنے لگا کر چلے
آخری حق بھی تیرا ادا کر چلے
تیری ہر ایک حاجت روا کر چلے
سر کٹا کر چلے ,منہ چھپا کر چلے
گرنے میّت پہ میّت لگی ہے یہاں
ان سے کہہ دو کہ چہرہ چھپا کر چلے
کون رکھتا مراسم ہے مُردوں سے پھر
دم نکلتے زمیں میں دبا کر چلے
پھیری اس نے گلے پر چھری, پھر کہا
امتحاں ہے ترا حوصلہ کر چلے
دیکھ کے حال میرے گریبان کا
بددعا کرنے والے ,دعا کر چلے
اے فرشتو نہ چھیڑو خُدارا مجھے
روگ پہلے جہاں سے اٹھا کر چلے
ان سے جا کے کہے اب خدا کے لیے
زلف ماتھے سے تھوڑا ہٹا کر چلے
نام تیرا لبوں پر رہا وقت مرگ
آخری وقت بھی ہم وفا کر چلے
دفن ہم ہو رہے تیری حسرت لیے
جا تجھے اب سپردِ خُدا کر چلے
لاش پر بھی نہ آیا وہی بے وفا
جس کی خاطر سر اپنا کٹا کر چلے
موت تجھ کو کہوں اب کیا میں بھلا
زندگی سے تو کب کا گلہ کر چلے
ان سے کہہ دو سنگ قبر بھی توڑ دے
یہ نشاں آخری بھی مٹا کرچلے
ہم ہوئے غیر کے ان سے کہہ دے کوئی
اب نہ آنکھوں سے آنکھیں ملا کر چلے
لاش کو بھی خراب آ کے کر دیجیے
زندگی تو کب کی فنا کر چلے

0
41