وہ لمحہ جب وہ بچھڑا، |
یوں لگا جیسے کوئی کہانی |
اپنے انجام سے پہلے ہی ٹوٹ گئی ہو، |
جیسے کوئی موسیقی کا راگ |
ایک نکتہ پر آ کر رُک گیا ہو |
اور سازوں میں خاموشی |
ایک شور کی طرح گونجنے لگی ہو۔ |
اس کے بچھڑنے پر، |
دنیا کی ہر داستان |
اپنے اندر اک نیا درد لے آئی، |
یاد آیا مجھے |
لیلیٰ کا مجنوں کے پیچھے صحرا میں بھٹکنا، |
رومیو کا جولیٹ کی قبر کے کنارے |
خاموش آنکھوں سے محبت کو الوداع کہنا۔ |
یہ داستانیں |
اب صرف کتابوں میں نہیں، |
میرے دل کے صفحات پر |
نئے سرے سے لکھی جا رہی ہیں۔ |
وہ لمحہ جب وہ رخصت ہوا، |
ہوا میں ایک ایسی سرگوشی تھی |
جیسے موسیقار اپنے ساز کو |
آخری بار چھوتا ہے، |
اور پھر ساز خاموش ہو جاتا ہے، |
گہرے سناٹے میں ڈوبا ہوا۔ |
میرا دل بھی ایک ساز تھا |
جس کی ہر تان |
اس کی سانسوں کے ساتھ چلتی تھی، |
اور اب، |
وہ تان ادھوری ہے، |
ایک ایسا گیت |
جو کبھی مکمل نہ ہو سکے گا۔ |
یاد آتا ہے مجھے |
قلوپطرہ کا انتونیو کے بغیر |
وہ خاموش لمحہ، |
جب اس کی بادشاہت نے |
اسے بھی بوجھل کر دیا تھا، |
جیسے محبت کے بغیر |
زندگی کا تاج |
محض ایک سرد بوجھ بن جائے۔ |
میں بھی اس لمحے میں، |
اپنی دنیا کے تاج کو |
بےوقعت محسوس کرتا ہوں، |
کیونکہ محبت کے بغیر |
ہر جیت، |
ہر کامیابی، |
ایک خالی فتح کی طرح لگتی ہے۔ |
تاریخ کی کتابوں میں |
ہمیشہ سے بچھڑنے کا قصہ لکھا گیا، |
شہنشاہوں کی جنگیں، |
پہلوانوں کی ہار، |
اور محبتوں کی شکست۔ |
آج میری بھی باری ہے، |
میری محبت کی شکست |
ان کہانیوں کا حصہ بن گئی ہے، |
میری تاریخ، |
میرے دل کی دیواروں پر |
نقش ہو چکی ہے۔ |
وہ لمحہ جب وہ گیا، |
موسم بدل گیا، |
ہوا نے اپنے رخ کو موڑ لیا، |
بارش نے اپنی بوندوں کو روک لیا، |
جیسے قدرت بھی جانتی ہو |
کہ محبت کا بچھڑنا |
صرف انسانوں کے دلوں پر نہیں، |
بلکہ کائنات کے ہر ذرے پر |
اثر کرتا ہے۔ |
اور جب میں اس کی یادوں میں ڈوبتا ہوں، |
تو ایک موسیقی کی مانند |
میرے کانوں میں اس کی ہنسی گونجتی ہے، |
جیسے بربط کے تار |
کسی پرانی، بھولی ہوئی دھن کو دوبارہ چھیڑتے ہوں۔ |
مگر وہ دھن ادھوری ہے، |
جیسے بیتهوون کی آخری سمفنی، |
جو کبھی مکمل نہ ہو سکی۔ |
مجھے یاد آتی ہے وہ شام |
جب ہم نے مل کر ستاروں کو دیکھا تھا، |
یونان کے دیوتا زوس کی طرح |
جو اپنی طاقتور دنیا میں |
محبت کی کمزوری کے سامنے ہار گیا تھا۔ |
آج، میں بھی |
اپنی دنیا کے زوس کی طرح |
اس محبت کے بغیر |
ایک خالی تخت پر بیٹھا ہوں، |
جہاں سب کچھ ہے، |
مگر وہ نہیں، |
جو دل کو زندہ رکھتا تھا۔ |
محبت کی تاریخ میں، |
ہمیشہ کوئی نہ کوئی بچھڑتا رہا ہے، |
کبھی ایک شہر چھوڑتا، |
کبھی ایک دل توڑتا، |
اور آج، |
میں بھی اس تاریخ کا حصہ ہوں۔ |
ایک ایسا قصہ |
جو شاید کبھی کسی کے لبوں پر نہ آئے، |
مگر میرے دل میں |
ہمیشہ زندہ رہے گا۔ |
وقت چلتا رہے گا، |
دن مہینے اور سالوں میں بدلتے جائیں گے، |
مگر وہ لمحہ |
جب وہ بچھڑا تھا، |
میرے دل کی دیواروں پر |
ہمیشہ تازہ رہے گا، |
ایک پرانی دھن کی طرح |
جو کبھی نہیں مر سکتی۔ |
محبت کی داستانیں |
صرف ان لوگوں کی نہیں ہوتی |
جو مل گئے، |
بلکہ ان کی بھی ہوتی ہیں |
جو بچھڑ گئے، |
اور آج، |
ہماری داستان بھی |
محبتوں کی اس تاریخ میں |
لکھ دی گئی ہے— |
ایک بچھڑنے کی کہانی۔ |
معلومات