در زندگی ہماری غم کا ہی جوش ہے |
صَوتِ حبیب دیکھو بالکل خموش ہے |
نے گوش کچھ کہے نے کچھ چشمِ سر کہے |
جیسے نِزاع مابینِ چشم و گوش ہے |
اس کو قِلادہ کیسے گوہر کا لا کے دوں |
وہ خود ہی ایک اَرفَع گوہر فروش ہے |
بے خانُماں سا جی کر کیا سود ہے تجھے |
سن اہلِ دل کی گر چہ واعِظ نِیُوش ہے |
حسانؔ تیرے دیں کا شیطان ہے عدو |
وہ ہی تو ایک دُزدِ اعمال و ہوش ہے |
معلومات