در زندگی ہماری غم کا ہی جوش ہے
صَوتِ حبیب دیکھو بالکل خموش ہے
نے گوش کچھ کہے نے کچھ چشمِ سر کہے
جیسے نِزاع مابینِ چشم و گوش ہے
اس کو قِلادہ کیسے گوہر کا لا کے دوں
وہ خود ہی ایک اَرفَع گوہر فروش ہے
بے خانُماں سا جی کر کیا سود ہے تجھے
سن اہلِ دل کی گر چہ واعِظ نِیُوش ہے
حسانؔ تیرے دیں کا شیطان ہے عدو
وہ ہی تو ایک دُزدِ اعمال و ہوش ہے

0
20