ہم نے تو اس کو بھی نا دل سے کبھی نکالا
پیتے ہیں عشق کی مے کر کے مزہ دو بالا
دنیا کے رنگ میں یوں رنگا نہیں ہے خود کو
ہم نے تو بعد تیرے ہے تیرا غم سنبھالا
اُس کو ہو بھولنا بھی ممکن تو کس طرح سے
آنکھیں ہوں جس کی پیاری انداز ہو نرالا
جس کو بھی دیکھ لو تم اپنی نظر اٹھا کر
اُس نے بڑی ہی مشکل دل کو ہے پھر سنبھالا
اُتنا برا نہیں ہوں جتنا سنا ہے تم نے
لوگوں نے بات کو ہے زائد ذرا اچھالا
معلوم ہے ہمیں بھی نیکوں کے کارنامے
خود ہی لگا لیا ہے اپنی زباں پہ تالا
مروا دیا ہے دل نے ہم کو تو تیرے ہاتھوں
جو آستیں کا تھا وہ ہم نے بغل میں پالا
ظلمت کی شب ہو یا پھر کچھ خوف کا ہو پہرہ
میرے لیے ہے کافی چہرہ وہ بھولا بھالا
اب تو جلال مانو کچھ تو ہے دل میں تیرے
بہلا رہا ہے تم کو زلفوں کا اس کی ہالا

0
7