زندانِ پیکرِ فنا کا صِلہ دے
اب نبضِ زماں کی ہم رکابی سدا دے
خود دیکھ لوں گا میں رب کو، آئندہ کبھی
خود سے مجھے ملنا ہے، اگر تو ملا دے
مقصودِ یزداں خود شناسی ہے تری
سِّر تقویمِ انساں سے پردا گرا دے
مشہود شہادت پے تری تکیہ کیے
آئینہ اسیرِ کُرہ کو اب دکھا دے
بیزار ہے اصنام تراشی سے یہ دل
پرچم احدیت کا پھر لہرا دے
تقدیس و اوہام کا پابند ہے تُو
قصرِ باطل کو جدت سے گرا دے
شفاف تری فکر، یقیں ہو مُحکم
ایسا جاں گُزیں کلام ہو، جو ضیا دے
کیوں آتی عار ضُو فِشانی سے تجھے ؟
دل ہے خوابیدہ مِؔہر، اس کو جِلا دے
----------٭٭٭--------

94