رہتا ہے مرے سامنے تُو ایسے
آئینہ ترے سامنے ہو جیسے
پیچیدہ ہیں احوالِ دل بہت یہ
چاہوں بیاں کرنا کروں تو کیسے
خیرات نہیں لیتے عشق میں ہم
بتلا دو نہیں ہیں ہم ایسے ویسے
گم ہو گئی کُنجیِ قُفلِ اَبجد
کرتے ہیں بہانے وہ کیسے کیسے
سرمایہِ اُلفت گِراں بہت ہے
پر مِؔہر نبھا کرنا جیسے تیسے
---------٭٭٭---------

0
104