تشنگی دل کی دور کی جائے
اس کی آنکھوں سے آج پی جائے
ایک مدّت ہوئی ملے اس کو
حاضری اس کے گھر پہ دی جائے
اس کے در سے نہ جائے خالی کوئی
کیوں نہ اس کی دعا ہی لی جائے
کیا کیا جائے ، جینے کی خواش
اور کچھ دیر دل میں جی جائے
بارہا ، سامنے رقیبوں کے
چاک عزّت ہوئی ہے ، سی جائے
ہجر کی پڑ نہ جائے عادت یوں
خواہشِ وصل ، دل سے ہی جائے
جا کے دل پر اثر کرے گہرا
بات اس رنگ میں کہی جائے
غیر کو بھی وہ مت کہو طارق
اس کی عزّت ، رہی سہی جائے

0
12