جنہیں دھڑکا نہیں سُود و زیاں کا
کہے گا کیا انہیں موسم خزاں کا
عجب وحشت ہوئی انساں پہ طاری
زمیں خطرے میں ہے غم آسماں کا
گرہ کھُلتی چلی جائے مسلسل
تہوّر دیکھنا شعلہ بیاں گا
کہاں آغاز تھا انجام کیا ہے
سِرا ملتا نہیں کچھ داستاں کا
مسائل کی وجہ تم ہو نا مَیں ہوں
یہ کوئی آدمی ہے درمیاں کا
کہی تم سے سنی سب کی زبانی
بُرا ہو ہائے ایسے رازداں کا
کئی صیّاد پھرتے ہیں چمن میں
نہ جانے کیا بنے گا گلستاں کا

0
56