| ہر سہولت ہی اذیت ہے مجھے |
| پہلے لگتا تھا ضرورت ہے مجھے |
| وہ کہاں غائب ہو جاتا ہے بَھلا |
| جس سے کہتا ہوں محبت ہے مجھے |
| ہونٹ اسود اس کو اچھے نا لگیں |
| ورنہ سگرٹ سے تو رغبت ہے مجھے |
| چند ہی ہیں جستہ یادِ زندگی |
| انہی یادوں سے رفاقت ہے مجھے |
| سب دِکھاوا ہے دِکھاوا ہر طرف |
| صرف اپنی ہی حمایت ہے مجھے |
| نا رسائی بے وفائی بس فقط |
| بے رخی کی اک شکایت ہے مجھے |
| دور کا اس میں مجدد تو نہیں؟ |
| درد امت سے عقیدت ہے مجھے |
| در سے آئے جانِ جاناں کے ہو کر |
| اِن کے پیروں سے بھی نسبت ہے مجھے |
| مل گئی سرمد محبت ہے تجھے |
| رب کی دولت یہ عنایت ہے مجھے |
معلومات