| ایک مینا دوسرا ساغر نہیں |
| امتیازِ جذبِ بحر و بر نہیں |
| موت پھرتی ہے سرِ عام اب مگر |
| آنکھ میں میری کوئی بھی ڈر نہیں |
| سہہ لیے ہیں رنج ہم نے بے شمار |
| صبر و شکر و ہمتِ دیگر نہیں |
| جو سکوں گوشہ نشینی میں ہے دل |
| وہ کسی محفل کسی در پر نہیں |
| آہ صحرا کی چمکتی دھوپ ہے |
| اور رستے میں کہیں بھی گھر نہیں |
| ہاں اُجالے کو ملے گا راج اب |
| ظلمتوں کا اب کوئی بھی گھر نہیں |
| گر کہو گے یارؔ ایسے رازِ شاہ |
| پھر تری گردن پہ تیرا سر نہیں |
معلومات