ایک مینا دوسرا ساغر نہیں
امتیازِ جذبِ بحر و بر نہیں
موت پھرتی ہے سرِ عام اب مگر
آنکھ میں میری کوئی بھی ڈر نہیں
سہہ لیے ہیں رنج ہم نے بے شمار
صبر و شکر و ہمتِ دیگر نہیں
جو سکوں گوشہ نشینی میں ہے دل
وہ کسی محفل کسی در پر نہیں
آہ صحرا کی چمکتی دھوپ ہے
اور رستے میں کہیں بھی گھر نہیں
ہاں اُجالے کو ملے گا راج اب
ظلمتوں کا اب کوئی بھی گھر نہیں
گر کہو گے یارؔ ایسے رازِ شاہ
پھر تری گردن پہ تیرا سر نہیں

0
62