شرماؤ نہ دیتے ہوئے رخسار کا بوسہ
پھٹ جائے گا دانتوں میں دبایا جو دوپٹّہ
گنجائشِ حسرت نہیں خلوت میں شبِ وصل
ایک ایک مزہ محفلِ عشرت کا ہے تحفہ
سوتے ہیں چلو تان کے شب چادرِ مہتاب
کیا شرم، جھجک وصل میں، کس بات کا پردہ
بادل امنڈ آیا ہے، گھٹا جھوم رہی ہے
نادان ہے سمجھے نہ جو موسم کا اشارہ
کیا جرم ہے پیتا ہوں جو میں حور کے ہمراہ
دے شیخ یہاں ہے جو ترے پاس حوالہ
چاہے کہ ترے ہونٹ کہیں کاٹ ہی کھائے
وحشی ہے مرا شوق، مرا دل ہے درندہ
مل جائے وہ غفلت زرہ تنہاؔ کہیں اک روز
بے تاب اترنے کو ہے اک عمر کا غصّہ

0
61