| جس طرف بھی وہ اک نظر ڈالے |
| سب کے سب خالی جام بھر ڈالے |
| اِس محبت کے جب گلے لگا میں |
| روح میں اُس نے چھید کر ڈالے |
| یوں بھی نوچا ہے خود کو وحشت میں |
| اپنے ناخن بھی خود کتر ڈالے |
| اُس کے در کا میں بس رہوں سائل |
| بھیک جھولی میں وہ اگر ڈالے |
| روبرو جب وہ شوخؔ آیا تو |
| ہاتھ دونوں ہی دل پہ دھر ڈالے |
معلومات