جس طرف بھی وہ اک نظر ڈالے
سب کے سب خالی جام بھر ڈالے
اِس محبت کے جب گلے لگا میں
روح میں اُس نے چھید کر ڈالے
یوں بھی نوچا ہے خود کو وحشت میں
اپنے ناخن بھی خود کتر ڈالے
اُس کے در کا میں بس رہوں سائل
بھیک جھولی میں وہ اگر ڈالے
روبرو جب وہ شوخؔ آیا تو
ہاتھ دونوں ہی دل پہ دھر ڈالے

44