وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
جیسے آتا ہے نیا سال مگر آئے گا
جانے والے میں بھلا شکوہ ترا کیسے کروں
خاک و خوں لاشے لئے تُو بھی تو گھر جائے گا
لے کے امّید کی لو آس کا شعلہ لے کر
آفتاب اور نئی ایک سَحَر لائے گا
پیڑ ہو جائے گا سر سبز بہار آنے سے
جب بھی جائے گی خزاں پھر سے ثمر لائے گا
ہر نیا سال یہ امّید دلائے سب کو
جانے والا تو گیا اب تو دِگر آئے گا
جانے والے نے بہت خون خرابہ دیکھا
مان لوں کیسے کہ انسان سُدَھر جائے گا
مُجھ کو تبدیلی کوئی ہوتی نظر آئی نہیں
سُرخ رنگوں سے نیا سال بھی بھر جائے گا
خاک اور خون سے لتھڑے ہوئے معصوم بدن
کیا مسل ما نوں کا شیرازہ بکھر جائے گا
اے نئے سال ترے بس میں کہاں ہے اتنا
زہر آنکھوں میں لہو بن کے اتر جائے گا
کاش انسان ہی انسان کو انساں سمجھے
چھوڑ پیچھے وہ درندوں کو مگر جائے گا
میں نے مانا ہے جسے وہ تو ہے رحمان و رحیم
دیکھ کر ظلم غضب اس کا بپھر جائے گا
سارے عالم پہ نہ ہو جائے کہیں جنگ محیط
تُو نہ آئے گا مدد کو تو شرر آئے گا
ہاں ترے نام پہ لوگ آج بھی ہوتے ہیں شہید
شعلہ بھڑکے گا تو ہر سمت بکھر جائے گا
امن کا لے کے جو آیا ہے پیام اس کو سُنو
حرص اور کینہ تمہیں لے کے کدھر جائے گا
تیری تخلیق کا مقصد ہے خدا سے ملنا
پیار انسان کا ہی لے کے اُدھر جائے گا
طارق اک روز سنیں گے وہ تری باتوں کو
رائگاں کیسے دعاؤں کا اثر جائے گا

0
10