یوں رستے سے ان کے ہٹایا گیا ہوں
مقدر کے ہاتھوں لڑایا گیا ہوں
قیامت کی کوئی گھڑی آ رہی تھی
میں مٹی سے جس دم بنایا گیا ہوں
انوکھی مرے ساتھ چالیں چلی ہیں
مٹا میں نہیں ہوں مٹایا گیا ہوں
ستم پر ستم جھیل کر بزم یاراں
کئی بار میں آزمایا گیا ہوں
مقدر نے مارے ہیں پہلے طمانچے
زبردستی پھر میں ہنسایا گیا ہوں
گرا کے مری قبر کے سنگ لحد کو
زمانے سے یوں میں مٹایا گیا ہوں
گلے ڈال کے طوق رسوائیوں کا
نگر در نگر میں پھرایا گیا ہوں
کیوں طنز مجھ پر سرِ بزم آخر
خود آیا نہیں میں بلایا گیا ہوں

14