رات اس نے مجھے چھپکے سے گھر اپنے بلا کر |
آئی میں۔ ” کہا چھت پہ بس امی کو سُلا کر “ |
شب بھر رہا اک معرکہ مجھ سے مِرے دِل کا |
غائب رہی ارمان وہ کمبخت جگا کر |
جب وقتِ سَحر آیا تو آئی منہ اُٹھا کر |
کہنے لگی ماں سو گئی تھی کُنڈی لگا کر |
آئی بڑی مشکل سے تِرے پاس قسم سے |
چھوڑ آئی ہوں کیچن میں صنم چولہا جلا کر |
کل ہوگی ملاقات یہ وعدہ رہا پکا |
جاؤ ابھی تم دیکھے نہ کوئی ہمیں آ کر |
ہو جاؤں میں قربان بہانوں پہ تمھارے |
ملتا ہے تمھیں کیا مجھے اس طرح ستا کر |
زیدؔی وہ سمجھتا ہے مجھے درد سے عاری |
ہنستا ہُوں جو سینے میں ہر اک زخم چُھپا کر |
معلومات