ہماری بے بسی پر مسکرا لے جس کا جی چاہے |
ہمارے صبر کو بھی آزما لے جس کا جی چاہے |
اسے شکوہ ہے کیوں جس کو نہیں ہے ضبط کا یارا |
وہاں اشکوں کے دریا بھی بہا لے جس کا جی چاہے |
شکایت ان کو ہے ہم سے ،خدا کا نام لینے پر |
گناہوں کے سمندر میں نہا لے جس کا جی چاہے |
عمل دیکھے نہ کوئی نام کے تو ہم مسلماں ہیں |
تو دھوکہ رِیش و جبّے سے وہ کھا لے جس کا جی چاہے |
مہ و خورشید دونوں روشنی کا ایک منبع ہیں |
ستاروں سے بھی دل کا نور پا لے جس کا جی چاہے |
ہمیں پہلوں سے نسبت ہے فدا جانوں کو کرنے کی |
ہمارا حال بھی ان سے ملا لے جس کا جی چاہے |
ہماری زندگی بیتی ہے ساری آزمائش میں |
کوئی حسرت جو باقی ہو مٹا لے جس کا جی چاہے |
فقیروں کو نہیں مطلب جہاں کے مال و دولت سے |
مگر رستے سے کیوں کوئی اُٹھا لے جس کا جی چاہے |
ہمیں طارق غرض آواز دینے سے ہیں دیتے ہیں |
کہ نیکی میں قدم آگے بڑھا لے جس کا جی چاہے |
معلومات