اے تلخئی ایّام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جینا ہؤا الزام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
کل تک تو بھرے شہر میں چرچا رہا جس کا
اب ہو گیا گمنام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جس در پہ پدھاری ہیں وہ نا چیز کا گھر ہے
رُک جائیے مادام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
سنتا ہوں کسی دوست نے توقیر اچھالی
یہ سچ ہے کہ الزام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی میری جیب کئی دن سے ہے خالی
لا دُردِ تہہِ جام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
موسیقی میں گزری ہے تو کچھ زر کی کھنک میں
ناکام ہی ناکام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
لُٹتی رہی ہر گام پہ معصوم جوانی
بِکتی رہی ہر شام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
ہر دَیر میں مسجد میں کلیساؤں میں ڈھونڈا
ملتا ہے کہاں رام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
زلفوں کے تلے کالی گھٹاؤں کی جوانی
ہو جائے یہیں شام میَں کچھ سوچ رہا ہوں
قرآن کی دولت سے ہے ایماں کی حرارت
کیا خُوب ہے انعام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں

0
87