سنا ہے بد قماش اس کو نگر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
یہی فتنے تو ہم شیطانُ شر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے چاہِ غب غب پر پھسلتے ہیں مسافر۔۔ |
سو ہم بھی اس کے کوچے سے گزر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے سجتی ہے ہر اک قبا اس کے بدن پر۔۔ |
سمور اس کے لیے خوں میں اتر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے گر چلے تو حشر ہے وہ چال اس کی۔۔ |
سنا ہے کبک در بھی آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے عمر بھر کا ہے نشہ اس کی نظر میں۔۔ |
یوں ہے مے پہ ہم الزام دھر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے لذتِ صوتِ ترنم ہی کی خاطر۔۔ |
مسافر اس کی بستی میں ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے چومتی ہے وہ شرارت پر خوشی سے۔۔ |
سو بچوں سی شرارت کوئی کر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے شمع کی اٹھتی ہے لو اس کے بدن سے۔۔ |
سو پروانے جنوں سے دشت بھر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے موتیوں کے ڈھیر ہیں اس چشمِ تر میں۔۔ |
سو ہم بھی اس سمندر میں اتر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
سنا ہے پاس رہتا ہے اسے وعدے کا اپنے۔۔ |
سو زیبؔ آؤ محبت اس سے کر کے دیکھتے ہیں۔۔ |
معلومات