منوں مٹی میں دفنایا گیا تھا
کبھی میں لاڈ سے پالا گیا تھا
وفا کی راہ میں دار و رسن تک
میں ہنستا کھیلتا گاتا گیا تھا
نہ مانا دل اگرچہ وقت سب کچھ
اسے سو سو طرح سمجھا گیا تھا
حقیقت میں، میں کیا ہوں میرے آگے
فقط اک آئینہ لایا گیا تھا
نہ جانے کیوں وہی اک عام چہرہ
مجھے پہلی نظر میں بھا گیا تھا
تھا انجانا تو میرا نام سن کر
وہ کیوں اتنے غضب میں آ گیا تھا
میں جیتا تھا تو پھر آخر مرے کیوں
گلے میں ہار کو ڈالا گیا تھا
یہ ظالم وقت کتنے چاند چہرے
حبیب اس سے، مرے گہنا گیا تھا

0
24