جاتے ہوئے نگاہ ملاتے چلے گئے
نشتر سا ایک  دل پہ لگاتے چلے گئے
زلفِ سیاہ چاند سے مکھڑے پہ ڈال کر
وہ اضطرابِ قلب بڑھاتے چلے گئے
ہے اپنی زندگی کی کہانی یہ مختصر
خود روئے دوسروں کو ہنساتے چلے گئے
جس شخص نے گلے سے لگایا شبِ فراق
ہم اس کو حالِ زار سناتے چلے گئے
ہم دورِ ناگوار میں خوشیوں کے واسطے
ناکامیوں کا جشن مناتے چلے گئے
میں زخمِ دل سبھی کو دکھاتا رہا مگر
سب مجھ پہ مہرِ جرم لگاتے چلے گئے
تونے سبھی کے سامنے رسوا کیا ہمیں
ہم تیرے عیب سب سے چھپاتے چلے گئے
ہم میکدے میں بیٹھ کے فرقت کی رات کو
اک داستانِ وصل سناتے چلے گئے
احسنؔ قریب سے جو گزرتا چلا گیا
کچھ لوگ اپنے منہ کو چھپاتے چلے گئے

0
15