ہم کو یہاں خزاں سے گلہ ہے نہ پیار میں
ہم کو فراقِ یار کا ڈر ہے بہار میں
باتوں کو تیری مان لوں کیسے بتا دے جب
کچھ بھی ثبات ہے نہیں عہد و قرار میں
چپ ہیں یہاں جو تیرے ستم پر ہے یہ سبب
تیرا وہاں حساب ہے روزِ شمار میں
اعزاز کی غرض ہے تو گلشن سجا فقط
ملتا نہیں سکوں ہمیں پھولوں کے ہار میں
کرنا کبھی نہ دفن مرے دل کو میرے ساتھ
جینے نہ مجھ کو دیگا مرا دل مزار میں
ہم کو ستم عزیز ستم گر کو ہم عزیز
پھرتے ہیں ایک دوسرے کی رہگزار میں
بس اک نگاہ میں ہوا میرا حواس گم
یہ دل بھی قید ہو گیا مِژگانِ یار میں
حسانؔ چل تو اب کہ کسی اور جا بسے
سمجھا نہ کوئی تیری زباں اس دیار میں

0
37