چھوڑ کر بزمِ ترنّم نغمہ خواں جاتا رہا |
گلستاں باقی ہے لیکن گُل فشاں جاتا رہا |
روز کرتا تھا اشارے روز دیتا تھا خبر |
چھوڑ کر رنگِ بہاراں ہم عناں جاتا رہا |
گلشنِ ہستی کہاں سب نیستی کا کھیل ہے |
سب کو روتا چھوڑ کر گریہ کناں جاتا رہا |
پہروں جس سے دوستی کی محفلیں سجتی رہیں |
اب وہ سارے دوستوں کا رازداں جاتا رہا |
آپ ہی پیدا کیا اور آپ ہی مارا مجھے |
منفئی اثبات سے میرا نشاں جاتا رہا |
ایسے ہی مرتے رہے تو نائبِ ارضی بھی ختم |
پھر نہ کہنا خلوتوں کا راز داں جاتا رہا |
اس لئے مَیں آپ کو پہچان نا پایا وہاں |
سرجری سے آپ کے تِل کا نشاں جاتا رہا |
کیا عجب دنیائے فانی کا تسلسل ہے امید |
ایک جھٹکے سے مرے دل کا گماں جاتا رہا |
خلیل قیصر ملک |
معلومات