کہاں ہم سے ممكن ہے مدحت علی کی
’’خدا جانتا ہے حقیقت علی کی‘‘
کرم ہو کہ شفقت ہو عادت وہی ہے
ہے سیرت محمد کی سیرت علی کی
دیا اپنا بستر نبی نے علی کو
ہے ثابت یہاں سے نیابت علی کی
على گر نہ ہوتے عمر بھى نہ ہوتے
بتائی عمر نے يہ عظمت على كى
ہر اِک اہل ایماں کے آقا علی ہیں
ہے سب پر اُجاگر یہ شہرت علی کی
یہی ہیں نبی كے نواسوں كے والد
بہت ہی بڑی ہے یہ عزت على كى
علی ہی کے دم سے شجاعت کا دم ہے
بھرے سب کی جھولی سخاوت علی کی
فصاحت ہے قرباں بلاغت ہے نازاں
کچھ ایسی ہے شانِ خطابت علی كى
کوئی غوث ہو، قطب ہو يا قلندر
ہے سب پر مقدم ولایت علی کی
اِن آنکھوں کی قسمت اسی دن کھلے گی
کہ جب ہوگی ان کو زیارت علی کی
زلیخا تھیں جو حسنِ یوسف پہ عاشق
نمایاں تھی یوسف میں صورت علی کی
علی کے ہی لہجہ میں گویا تھے داؤد
سلیماں میں پنہا تھی ہیبت علی کی
ہے ایماں کی بنیاد ان کی محبت
سو ہم پر ہے واجب مودت علی کی
یہ وارث علی کا ہے فیضانؔ دیکھو
اثر کو ملی ہے حمایت علی کی

0
80