ہر ذرہ ہے دہر کا مداحِ مصطفیٰ
جن کو تڑپ ہے دیتی سرکار کی عطا
حق کے ارادہ میں تھا پہچان لیں اسے
نورِ نبی سے ہستی کا کارواں چلا
پورا جہانِ کن جو توصیف جاناں ہے
اس کو حسن تمامی سرکار سے ملا
کونین پر ہے رنگت آئی حسین جو
دانی خدا ہے اس کا قاسم ہیں جانِ ما
صلے علیٰ سے رونق سارے چمن میں ہے
جس کا خزینہ اُن کو قادر نے خود دیا
اجرام ہر فلک میں پیدا کیے گئے
توقیرِ مصطفیٰ سے جن کا حسن سجا
ناسوت کا یہ عالم ہے وقتِ خاص تک
پھر حشر میں لگے گا جلسہ حبیب کا
مخفی یہ کنتُ کنزاََ کیوں کر عیاں ہوا
لولاک کہہ کے رب نے پردہ اٹھا دیا
محمود جانِ ہستی ہیں وجہہ کائنات
یعنی ہمارے آقا محبوبِ کبریا

45