لگا ہوں جس کو مصیبت سے میں بچانے میں
وہی لگا ہے مری مشکلیں بڑھانے میں
لگے ہیں یار مرے گھر مرا جلانے میں
مرے دیار سے مجھ کو ہی اب بھگانے میں
غموں نے گھیر لیا درد ہے مصیبت ہے
لگے ہو تم تو فقط حال ہی سنانے میں
کسی کو درد سنا کر نہ وقت ضائع کر
لگاتو وقت وہی درد کو مٹانے میں
جفا ہے بغض ہے کینہ ہے اور عداوت بھی
چھپے ہیں راز کئی ان کے مسکرا نے میں
ابھی بھی وقت ہے حالت سدھار لو اپنی
مثال بن کے ابھر جاؤ گے زمانے میں
چراغِ عشق لیے پھر رہا ہوں میں طیب
ہوائیں گرچہ لگی ہیں اسے بجھانے میں
محمد طیب برگچھیاوی سیتامڑھی

157