دل میں وہ شوق بھی نہیں آنکھوں میں خواب بھی نہیں
ہائے وہ پہلا سا جنوں وہ اضطراب بھی نہیں
ہاں خواہشوں کی جنگ میں ہے یہ جگر لہو لہو
حالت خراب ہے مگر حالت خراببھی نہیں
دیکھو کہ جس کی چھاؤں میں ہے ہجر کاٹنا مجھے
اس کالے آسمان پر وہ آفتاب بھی نہیں
کھلنے سے کھلتی ہی نہیں کوئی عجب پہیلی ہے
ہستی حباب بھی نہیں ہستی سراب بھی نہیں
تو مجھ کو میرے دوست بس اک بار آزما کے دیکھ
ہاں میں خراب ہوں مگر اتنا خراب بھی نہیں
یہ سب کمالِ عشق ہے ورنہ اے شہریار سن
وہ لب گلاب بھی نہیں آنکھیں شراب بھی نہیں

0
36