| تیرے احسان کہاں ہم تو چکا پائیں گے |
| اپنے لفظوں میں کہاں ان کو بتا پائیں گے |
| شمع ایسی ہے جلائی کہ دلوں میں تم نے |
| جس کی لو سے سبھی بےنور جلا پائیں گے |
| ایک انمول جو نسخہ تھا بتایا اس نے |
| آج بھی اس سے سبھی لوگ شفا پائیں گے |
| یہ ہے تاثیرِ سخن یا کوئی اعجاز ترا |
| میرے جیسے بھی کئی لوگ انا پائیں گے |
| شکوہ ہے تو کہیں ملتا ہے جوابِ شکوہ |
| ڈوب کر اس میں کئی لوگ خدا پائیں گے |
| تیرے لفظوں میں ہمایوں ہے کہاں اتنی سکت |
| وسعتیں ان کے تصور کی سنا پائیں گے |
| ہمایوں |
معلومات