اٹھاتے ہیں قلم اپنا تو بس دلدار لکھتے ہیں
ستم احباب کرتے ہیں تو ہم گلزار لکھتے ہیں
نظر سے بچ کے چلنا تم کہ نظریں وار ہیں کرتی
وجہ ہے بس یہی آنکھوں کو جو فنکار لکھتے ہیں
زمانے کی روایت ہے نمک زخموں پہ رکھ دینا
ہم اپنے غم جو ہیں سارے پسِ دیوار لکھتے ہیں
بلائیں آن پڑتی ہیں، برستے ہیں یہاں فتنے
خود اپنے شہر کو ہم وادیِ کُہسار لکھتے ہیں
ہماری سادگی دیکھیں، زمانہ وار کرتا ہے
زمانے کے ستم کو ہم کرم ہر بار لکھتے ہیں
ہمارے ساتھ کا اک پل ذرا تم کاٹ کر دیکھو
کہ ہم لوگوں سے خود کو کیوں بہت بیزار لکھتے ہیں
وہ اکثر پوچھتے ہیں زخم یہ کیسے ملے حسانؔ
اٹھا کر ہم قلم اپنا فقط دلدار لکھتے ہیں

0
11