نادم نہ ہو طبیبا! یہ لادوا نہیں ہے |
میرے نصیب میں ہی لکھی شفا نہیں ہے |
منصف سے- التجا ہے- کرلے نگاہِ ثانی |
خامے نے جو لکھی ہے میری سزا نہیں ہے |
الفاظ کی مرے تو بدلی گئی ہے تفسیر |
جو تو سمجھ رہا ہے, وہ مدعا نہیں ہے |
مانگا نہ میں نے کچھ بھی، مانگا ہے صرف تجھ کو |
اٹھے ہیں ہاتھ میرے، حرفِ دعا نہیں ہے |
تجھ کو تو ہے میسر سارا زمانہ لیکن |
میرا کوئی جہاں میں تیرے سوا نہیں ہے |
گو باندھ کر زباں کو سب زخم جھیلے ہیں میں |
لیکن تجھے بھی آیا خوفِ خدا نہیں ہے |
دل رکھنے کو مسیحا کرتے رہے دکھاوے |
دے دی ہمیں وہ شیشی، جس میں دوا نہیں ہے |
یا روندنے نہ دے میرا سر خداؤں کو پھر |
یا اعتراف کر تو میرا خدا نہیں ہے |
معلومات