مزید پانے کی خواہش جو بے تحاشا ہے
اسی سے ہر جگہ دنیا میں یہ تماشا ہے
ملا ہے اب جو اُسے چھوڑ دیں نہیں ممکن
جتن ہزار کئے تب اُسے تلاشا ہے
حسیں بدن کی اداؤں نے خود گواہی دی
اُسے کسی نے بڑے پیار سے تراشا ہے
ترے نشان جو دیکھے تو آنکھ بھیگی ہے
ترا جو ذکر سُنا دل یہ ارتعاشا ہے
مزاجِ یار بدلتا ہے اب تو پل بھر میں
وہ پل میں سیر ہے اگلے ہی پل وہ ماشا ہے
کسی کو چوٹ لگے دل تو میرا دُکھتا ہے
کوئی ہو انساں کسی کے جگر کا قاشا ہے
تم ان کا ذکر مرے سامنے کیا نہ کرو
ستم گروں نے مری روح کو خراشا ہے
کہاں پہ لے کے چلے جائیں دردِ دل اپنے
جہاں میں امن ہو طارق سبھی کی آشا ہے

2
78
پسندیدگی کاشکریہ رومانہ سید صاحبہ!

0
پسندیدگی کا شکریہ ثاقب صاحب!

0