مزید پانے کی خواہش جو بے تحاشا ہے |
اسی سے ہر جگہ دنیا میں یہ تماشا ہے |
ملا ہے اب جو اُسے چھوڑ دیں نہیں ممکن |
جتن ہزار کئے تب اُسے تلاشا ہے |
حسیں بدن کی اداؤں نے خود گواہی دی |
اُسے کسی نے بڑے پیار سے تراشا ہے |
ترے نشان جو دیکھے تو آنکھ بھیگی ہے |
ترا جو ذکر سُنا دل یہ ارتعاشا ہے |
مزاجِ یار بدلتا ہے اب تو پل بھر میں |
وہ پل میں سیر ہے اگلے ہی پل وہ ماشا ہے |
کسی کو چوٹ لگے دل تو میرا دُکھتا ہے |
کوئی ہو انساں کسی کے جگر کا قاشا ہے |
تم ان کا ذکر مرے سامنے کیا نہ کرو |
ستم گروں نے مری روح کو خراشا ہے |
کہاں پہ لے کے چلے جائیں دردِ دل اپنے |
جہاں میں امن ہو طارق سبھی کی آشا ہے |
معلومات