کیوں نظر آتے نہیں حالاتِ شب
جب کہ سب موجود ہیں ، حاجاتِ شب
دن کو کُھل کر وہ ہوا تھا سامنے
جب گیا سورج ہوئے ، لمحاتِ شب
نور دکھلاتا رہے گا راستہ
روک پائیں گی کہاں ظلماتِ شب
چاند تارے ساتھ اس کے ہو لئے
آ گئی ہے اس طرح ، باراتِ شب
جانے کس جانب ہمیں لے جائیں یہ
جوش میں آتے ہیں جب جذباتِ شب
ڈھونڈنے نکلے تھے جو لذّات کو
ان کے پلّے پڑ گئیں آفاتِ شب
ہل گئے ہیں پائے اس کے جب کبھی
عرش تک پہنچے ہیں یہ سجداتِ شب
ڈھونڈتے ہیں اس کو طارق رات بھر
کیوں بھلا ضائع کریں ، اوقاتِ شب

0
72