وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں |
سب ہے معلُوم تُُجھے لوٹ کے آنا بھی نہِیں |
رہنے دیتا ہی نہِیں تُو جو درُونِ دِل اب |
اور مِرا دِل کے سِوا کوئی ٹِھکانہ بھی نہِیں |
کِتنے جُگنُو تھے، مِرے دوست ہُوئے گرد آلُود |
اب مُجھے دِیپ محبّت کا جلانا بھی نہِیں |
تِتلِیاں لب پہ مِرے کیسی یہ مُسکان کی ہیں |
کھولنا تُجھ پہ نہِیں بھید، چُھپانا بھی نہِیں |
اُس کی چُپ دِل کو مگر چِیر کے رکھ دیتی ہے |
بات کرنے کا مِرے پاس بہانہ بھی نہِیں |
میں نے اِک عُمر اِسی میں ہی لگا دی یارو |
"اب تو یک طرفہ محبّت کا زمانہ بھی نہِیں" |
یہ جو منسُوب ہے اِک درد کہانی مُجھ سے |
سچ تو یہ ہے کہ کوئی جُھوٹا فسانہ بھی نہِیں |
میں نے ہر بار محبّت کا بھرم رکھا ہے |
اب کے رُوٹھا تو تِرے شہر پِھر آنا بھی نہِیں |
اب کہِیں اور رشِؔیدؔ اپنا ٹِھکانہ کر لے |
مجُھ کو اب درد کو سِینے سے لگانا بھی نہِیں |
رشِید حسرتؔ۔ |
معلومات