میں کہ خار ہوں نا گلاب ہوں
میں نہ گیت نا ہی رُباب ہوں
میں کہ مچھلی کوئی بن آب ہوں
میں سوال ہوں نا جواب ہوں
میں کہ اک نظر کا سراب ہوں
میں تو بس کہ مثلِ حُباب ہوں
تیری چاہتوں نے جو دے دیا
وہ ہی اک مسلسل عذاب ہوں
میں وطن سے، مجھ سے وطن مرا
میں کہ سندھ، راوی چناب ہوں
یہ زمین ساری ہے گھر مرا
میں تو ہر جگہ ہی جناب ہوں

54