یہ لہجہ تیرا یہ تیری باتیں کہاں گئیں ہیں ادائیں تیری |
بناوٹی تھے وہ وعدے تیرے بناوٹی تھیں وفائیں تیری |
کمال یہ تھا کہ ہم نے سوچا تجھی کو ساری جو ساعتوں میں |
یقین یہ تھا کہ میری ہوں گی یہ دل و جاں سے وفائیں تیری |
چلوں میں لے کے جو ساتھ یادوں کے قافلے کو سفر میں اپنے |
ہیں ڈالیں گرچہ یہ رنج میں ہی ستم کہانی سنائیں تیری |
میں اب بھی تیرے سحر میں ہوں میں ہنوز تیرے اثر میں ہی ہوں |
کہ خواب میں بھی جو لیتا ہوں میں تو اب بھی اکثر بلائیں تیری |
جو عہدِ رفتہ سے بھی زیادہ طلب یہ تیری ہے اب بھی مجھ کو |
ختم نہ ہو یہ میں جتنا چاہوں کہ آرزو کو سلائیں تیری |
عجب ہے حالت فرار کی بھی ملے نہ مجھ کو کوئی بھی صورت |
میں لاکھ سوچوں کہ بھول جاؤں مگر یہ یادیں تو آئیں تیری |
نہ چھوڑا ہم نے تو یارو رستہ ہوا کا کوئی یوں دل کی جانب |
یہ خوشبو تیری کہاں سے آئی کہاں سے آئیں ہوائیں تیری |
بھلا دئے تھے مٹا دئے تھے تری یہ قربت کے سارے لمحے |
ہیں کیوں یہ لمحے جو زندگی میں یہ یاد مجھ کو دلائیں تیری |
ہے وقت یہ بھی گزر گیا ہے جو فرقتیں تھیں جو قربتیں تھیں |
یہ ہجر میں اب وہ بھولی یادوں کی بستیاں کیوں بسائیں تیری |
یہ تھی ہمایوں کی ایسی قسمت کہ مل نہ پایا کوئی صلہ بھی |
محبتیں بھی گزر گئی ہیں یہ عادتیں بھی تو جائیں تیری |
ہمایوں |
معلومات