آئے تھے آپ خود یہاں یا کہ تھا لطف خواب کا
بھینی سی تھی مہک وہی رنگ وہی گلاب کا
ہم سے ملائکہ کہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں
لے چلیں گے بہشت میں چھوڑا حساب آپ کا
ہم سے حسابِ دوستاں ہو گا تو کیا بتائیں گے
کھولیں گے کیا لکھا ہوا اور کسی کے باب کا
آپ بھی اپنے آپ پر اتنا غرور مت کریں
یہ تو نہیں نہ ہو کبھی حال خراب آپ کا
آپ کو بھی تو پیار تھا جس پہ لکھا تھا میرا نام
کونے سے تھا مُڑا ہوا دیکھا ورَق کتاب کا
وہم ہوا ہے آپ کو ہم نے تو یہ کہا نہیں
آپ سے ہی سوال تھا کیا تھا جواب آپ کا
آپ کی گفتگو تھی یا جام تھے معرفت بھرے
جس سے نکل نہیں سکے نشّہ تھا وہ شراب کا
چاند کو دیکھ کر ہمیں یاد کسی کی آ گئی
چہرہ چمک رہا تھا یوں جیسے ہو آفتاب کا
غور کیا ہے عمر بھر ہم کو یہی پتہ چلا
جب وہ خدا ملا نہیں دَور ہے وہ عذاب کا

0
14