ہنستے ہوۓ چہروں کو رلانے میں لگے ہیں
کیوں امن کی دیوار گرانے میں لگے ہیں
ہم لوگ تو لاشوں کو اٹھانے میں ہیں مصروف
کچھ لوگ مگر جشن منانے میں لگے ہیں
کیا خیر کی امید کرے کوئی جہاں پر
انسان کو انسان مٹانے میں لگے ہیں
ہم اہلِ محبت ہیں سیاست نہیں کرتے
ہر ایک کو سینے سے لگانے میں لگے ہیں
خود غرضی کے مارے ہوئے یہ جھوٹےمسیحا
مظلوم کی آواز دبانے میں لگے ہیں
لاچار تو ٹوٹی ہوئی چھت دیکھ رہا ہے
نیتا ہیں کہ تصویر بنانے میں لگے ہیں
خاموشی پہن کر کے میداں میں اتر جاؤ
کیوں آپ یونہی وقت گنوانے میں لگے ہیں
سمجھے تھے ہمیں طالب جن لوگوں کو اپنا
ہاں آج وہی ہم کو گرانے میں لگے ہیں

0
13