| ہنستے ہوۓ چہروں کو رلانے میں لگے ہیں |
| کیوں امن کی دیوار گرانے میں لگے ہیں |
| ہم لوگ تو لاشوں کو اٹھانے میں ہیں مصروف |
| کچھ لوگ مگر جشن منانے میں لگے ہیں |
| کیا خیر کی امید کرے کوئی جہاں پر |
| انسان کو انسان مٹانے میں لگے ہیں |
| ہم اہلِ محبت ہیں سیاست نہیں کرتے |
| ہر ایک کو سینے سے لگانے میں لگے ہیں |
| خود غرضی کے مارے ہوئے یہ جھوٹےمسیحا |
| مظلوم کی آواز دبانے میں لگے ہیں |
| لاچار تو ٹوٹی ہوئی چھت دیکھ رہا ہے |
| نیتا ہیں کہ تصویر بنانے میں لگے ہیں |
| خاموشی پہن کر کے میداں میں اتر جاؤ |
| کیوں آپ یونہی وقت گنوانے میں لگے ہیں |
| سمجھے تھے ہمیں طالب جن لوگوں کو اپنا |
| ہاں آج وہی ہم کو گرانے میں لگے ہیں |
معلومات