یقین پار اتر گیا
مگر گمان ڈر گیا
جو تجھ کو چھوڑ کر گیا
وہ ہو کے در بدر گیا
میں اتنا غم پسند تھا
خوشی ملی تو مر گیا
جو ہو سکے تو سوچئے
کیوں نالہ بے اثر گیا
بنے گا حشر بزم میں
اگر گیا مگر گیا
وہ جرم جو کیا نہیں
وہی تو میرے سر گیا
وہ تیر طنز کا مرے
جگر کے پار اتر گیا
ملا دوام اسے کہ جو
رہِ وفا میں مر گیا
وہ مجھ میں دیکھنا ترا
ہزاروں رنگ بھر گیا
نہ روئیے جو میں اگر
تمام آپ پر گیا
وہ سیلِ آب عشق کا
ڈھلی جو عمر اتر گیا
بتا کہ بزمِ یار میں
تو کس گمان پر گیا
حبیب جو تھا جان و دل
خبر ہے کب کا مر گیا

0
37