ہم رب سے محبّت کرتے ہیں تو اس کو دعاؤں میں بدلیں
تعمیل کو اس کے حکموں کی ہم اپنی اداؤں میں بدلیں
انصاف نہیں خوراک نہیں ننگے ہیں بدن پوشاک نہیں
وہ سوچ جو شیطانوں سی ہے اِن فرماں رواؤں میں بدلیں
پروان چڑھائیں قدروں کو تعلیم کی ہم تعظیم کریں
تہذیب لباس میں ہو چادر کو سر کی رداؤں میں بدلیں
ہم سب کے بھلے کا سوچیں گر ترجیح غریبوں کو دے کر
پھر جو بھی کام کریں گے کیوں لوگ اس کو خطاؤں میں بدلیں
خاموشی تو پیمانہ ہی نہیں الفت کا اگر اظہار نہ ہو
دل میں جو محبّت رکھتے ہیں کیونکر نہ وفاؤں میں بدلیں
اے کاش کہ ان کے کان کھُلیں حق بات سمجھ میں آ جائے
جو جھوٹ کو سچا جانیں اور نفرت کو جفاؤں میں بدلیں
کب آنکھ سے تیری اوجھل ہے جو ظلم کی چکّی چلتی ہے
تُو دیکھے تیرے بندوں کے دن رات سزاؤں میں بدلیں
طارق ہے دعا وہ جلد آئیں دن حق آئے باطل جائے
پا جائیں صبر کا شیریں پھل سب درد جزاؤں میں بدلیں

0
13