اس کے دامن میں اترتے ہیں ستارے اکثر
وہ جو چاہت سے مرے بال سنوارے اکثر
غم کے صحرا میں میسر ہو ہی جاتی ہے خوشی
پیار سے جب وہ مرا نام پکارے اکثر
اس کی قربت میں نہیں خوف بھی اس لمحے کا
جس میں رہتے نہیں ہیں لوگ ہمارے اکثر
گر ملے بیچ سمندر بھی جو طوفاں ہم کو
اس کی لائے دعا ہی کھینچ کنارے اکثر
میں نہ لوٹوں تو پریشانی میں وہ تو میری
جاگتی آنکھوں میں ہی رات گزارے اکثر
سعد کہتے رہیں کچھ بھی یہ زمانے والے
بیٹے ہوتے ہیں ماں کے راج دلارے اکثر

108