جی بر کے دیکھن سے جی بر گیا ہے میرا
کچھ وہ محبت میں ایسا دغا کر گیا ہے
جی تو چاہتا اس کا نام تلک نا لو
نام بھی لینا مجبوری اک بن گیا ہے
دکھ ہوتا ہے جب کوئی راہ میں چھوڑ کے جائے
پاس ہو کر منزل کے وہ راہ بدل جائے
شکوے گلے تو چلتے رہتے ہیں زندگی میں
وہ تو میرا دل ہی زخمی کر گیا ہے
وہ جو کرتا تھا وعدے آنے کے بہت
آج وہ وعدہ نا آنے کا کر گیا ہے
ہجر مقدر میں جو تھا ہم کیا کرتے
ؤہ بے وفا تھا وہ بے وفائی کر گیا ہے
سچ کو ثابت کرنے میں تو لگا تھا ندیم
احمق جھوٹا تھا دیکھو آگے چلا گیا ہے

0
72