درد آشنا سے ہم شہِ رگ سے قریب ہیں
یہ جان کر ہی درد ہمارے حبیب ہیں
ہر شخص ایک نسخہ بتاتا ہے اب ہمیں
بیمار ہو کے علم ہوا سب طبیب ہیں
قدرت کے کارخانے کا دیکھو تو انتظام
جتنے بھی کاروبار ہیں اس کے عجیب ہیں
یہ تو نہ تھا کہ مرتبہ تھا اس قدر بلند
ہم اس کے در پہ آ گئے تھے خوش نصیب ہیں
ہم پر بھی ایک نظرِ کرم ڈال دیجئے
ہم آپ کی طرح ہی وطن سے غریب ہیں
وہ جن سے ذکرِ خیر تِرا سر سری چلا
سُنتے ہیں آجکل وہ ہمارے رقیب ہیں
دیکھے ستم گروں میں کئی آشنا بھی آج
صیّاد ہیں گو دیکھنے میں عندلیب ہیں
شعر و سُخن کی اب یہاں قیمت نہیں رہی
کیا انقلاب ہے ہوئے ارزاں ادیب ہیں
اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے
طارق نے کب کہا ترے عبدِ منیب ہیں

85