وقت کی چکّی میں پِس کر ہم کہیں کھو جائیں گے
ہم بھی کیا بیتے زمانے کی طرح ہو جائیں گے
کیوں ترقّی کی طرف بڑھتے نہیں اپنے قدم
رُک گئے تو ہاتھ اپنی جان سے دھو جائیں گے
ہم فقط یہ کہہ رہے ہیں، تم بھی جینا سیکھ لو
زندہ رہ کر پھر مرو، ہو کر فنا تو جائیں گے
اب فسانے سب حقیقت ہو گئے ، کب تک یہاں
سنتے سُنتے لوریاں بچے سبھی سو جائیں گے
زندگی بھر دوستی تم نے نبھائی ہے اگر
جان دینے کے لئے جانا ہے پوچھو جائیں گے
عہد و پیماں کر لیا طارقؔ جو اس دلبر کے ساتھ
امتحاں کا کوئی دروازہ بھی کھولو ، جائیں گے

0
6