ترا یہ چہرہ جو یار آفتاب جیسا ہے |
سو تیری دید کا منظر بھی خواب جیسا ہے |
ابھی تلک مرے ہاتھوں سے خوشبو آتی ہے |
اے دوست تیرا وہ چھونا گلاب جیسا ہے |
یہ کون آگئے ہیں بزم میں ذرا دیکھو |
کہ ان کے آنے سے اک انقلاب جیسا ہے |
تری یہ بےرخی نے چھین لی مری سانسیں |
ترا یہ روٹھنا مجھ پر عذاب جیسا ہے |
ادب سے مل رہے ہیں اس سے بزم میں سب لوگ |
یہ کون ہے کہ جو عالی جناب جیسا ہے |
بس ایک بار میں سنتے ہی سب سمجھ بیٹھا |
ترا سوال بھی یارا جواب جیسا ہے |
تری جو یاد بھی آۓ تو ہنستا ہوں یونسؔ |
تمہاری یاد کا نشہ شراب جیسا ہے |
معلومات