ترا یہ چہرہ جو یار آفتاب جیسا ہے
سو تیری دید کا منظر بھی خواب جیسا ہے
ابھی تلک مرے ہاتھوں سے خوشبو آتی ہے
اے دوست تیرا وہ چھونا گلاب جیسا ہے
یہ کون آگئے ہیں بزم میں ذرا دیکھو
کہ ان کے آنے سے اک انقلاب جیسا ہے
تری یہ بےرخی نے چھین لی مری سانسیں
ترا یہ روٹھنا مجھ پر عذاب جیسا ہے
ادب سے مل رہے ہیں اس سے بزم میں سب لوگ
یہ کون ہے کہ جو عالی جناب جیسا ہے
بس ایک بار میں سنتے ہی سب سمجھ بیٹھا
ترا سوال بھی یارا جواب جیسا ہے
تری جو یاد بھی آۓ تو ہنستا ہوں یونسؔ
تمہاری یاد کا نشہ شراب جیسا ہے

0
4
67
بہت عمدہ

بہت شکریہ جناب

بہت اچھا تسطیر کیا

شکریہ