| ذرا بھی اس میں خدایا مجھے گمان نہیں |
| سوائے تیرے کوئی خالقِ جہان نہیں |
| یہ سچ ہے کوئی بھی منزل کبھی ہوئی نہیں سر |
| وفا شعارو اگر ہمتیں جوان نہیں |
| امیرِ شہر کی فرعونیت بڑھے نہیں کیوں |
| غریبِ شہر کے منھ میں اگر زبان نہیں |
| مرے خلاف ہیں سب مفتیانِ شعر و سخن |
| میں اپنے آپ سے اتنا بھی خوش گمان نہیں |
| مرے خلاف، یقیں ہے مجھے کہ منھ میں ترے |
| بیان لاکھ سہی، پر تری زبان نہیں |
| امیر؟ سایہ دیوار و در ہو امن میں ہو |
| غریب؟ جس کی سکونت نہیں مکان نہیں |
| رہِ وفا میں ارادہ، یقین و عزم ہو، ہاں |
| تو خار و خشت ہیں گلزار، ہر چٹان، نہیں |
| یہ کر و فر، سبھی جھوٹی تسلیاں ہیں حبیب |
| سوائے تیرے کوئی میرا پاسبان نہیں |
معلومات