خدا چاہیے نا صنم چاہیے |
ہمیں تو فقط ہم قدم چاہیے |
شکیبی ملے تشنگی کو مری |
اسے ایک دستِ کرم چاہیے |
سُلگنا نہیں ہجر میں عمر بھر |
ہمیں ہم نشیں دم بدم چاہیے |
ترے ذکر سے جو بھی معمور ہو |
سبھی نظمیں ہر وہ غزل چاہیے |
ترے سمجھوں عشوہ کو غمزہ کو میں |
مجھے اس قدر جامِ جم چاہیے |
تعلق بھلا جوڑتے تجھ سے ہم؟ |
برابر خوشی کے جو غم چاہیے |
بہت جنبشِ رو ہے اِثبات کو |
کہا کب اُٹھائے قسم چاہیے |
ہو اک دوسرے کے سوا نا کوئی |
جُنوں کو مرے اک حرم چاہیے |
ابھی ٹھیک سے تجھ کو دیکھا نہیں |
ترے وصل کو اور جنم چاہیے |
ہیں کاٹے بہت ہجر کے رتجگے |
کہ مُضعاف ہر پل دہم چاہیے |
سمٹنے لگے میں بہکنے لگوں |
بڑا جام اور اک چِلم چاہیے |
بڑھی حسن کی اب ہیں باریکیاں |
کوئی خوب اہلِ قلم چاہیے |
نہیں عشق خودداری کرتا پسند |
انا مِؔہر تسلیمِ خم چاہیے |
----------٭٭٭--------- |
----------٭٭٭--------- |
معلومات