| وہ جھوٹی تعریف کے قصے ختم نہیں ہوتے |
| بے حد شیریں لوگ بھی یار ہضم نہیں ہوتے |
| دائیں بائیں کا جو فرشتہ ہے لکھ رہا ہے سب |
| اور ہم سمجھے ہیں یہ گناہ رقم نہیں ہوتے |
| جانو بابو کی ہے صدی ہے پریم بھی وقتی |
| اب اے جی او جی لو سنو جی صنم نہیں ہوتے |
| پہلے بولو جھوٹ تو آتی تھیں انساں کو موتیں |
| یہ نیتا کمبخت تو جھوٹے بھسم نہیں ہوتے |
| آنکھوں کے دریا اور درد بھی دل کے رواں ہیں |
| وہ پتھر دل اتنے ہیں پھر بھی تو نم نہیں ہوتے |
معلومات