مدتوں اندر کی الجھن کو ہی سلجھایا نہیں |
تھی سُدھا آگے امرتا پیچھے نمٹایا نہیں |
ہم نے احساسات ہی پائے ہیں "ساحر" کی طرح |
کیوں کسی جانِ غزل کو ہم نے اپنایا نہیں |
اس کی یہ خوبی ہمیشہ ہی ہمیں اچھی لگی |
خوبصورت ہے کبھی اس پر وہ اترایا نہیں |
زندگی بھر اس کے چہرے پر خوشی رقصاں رہی |
یہ مُحبت ہی تھی ہم نے اس کو رولایا نہیں |
زیست جتنی گزری ہے جلوت میں ہی تو گزری ہے |
دیکھیے اس کے سوا کوئی پسند آیا نہیں |
وہ ہمیں اچھا لگا اس سے عطا غزلیں ہوئیں |
خامشی سے چھوڑ آئے اس کو تڑپایا نہیں |
چاہتا تھا وہ کہ دامن پر نہ کوئی بات ہو |
ہم نے چپکے سے سمویا اس کو الجھا یا نہیں |
یہ فقط ہم ہی نہیں رنجیدہ ہیں کھو کر اسے |
دُور جا کر اس سے اے دل کون پچھتایا نہیں |
ہم ہوئے رخصت بہت رویا یہ لوگوں نے کہا |
کوئی اس نے خود ہمیں پیغام بھجوایا نہیں |
وہ غلط سمجھا ہمیں کیا منتیں کرنا، چلو |
کیا ٹھہرنا شہر میں جو دل میں ٹھہرایا نہیں |
جو جہاں بھی حسن دیکھا شعر وہ ہم نے کیا |
بس ہمیں اعجاز کوئی اور فن آیا نہیں |
معلومات