جانے کس کس کو دعا دی ہم نے |
جب ترے در پہ صدا دی ہم نے |
جب کبھی یاد تری آئی ہے |
رات آنکھوں میں بِتا دی ہم نے |
لوگ عادی ہوئے ہیں ظلمت کے |
ہے گِلہ شمع جلا دی ہم نے |
آگ میں اپنی ہی وہ جلتے ہیں |
اور کہتے ہیں ہوا دی ہم نے |
چُور زخموں سے ہوا ذہن مگر |
مرہمِ صبر لگا دی ہم نے |
تھے بلا نوش وہ جو ہاتھ آئی |
مئے عرفان پلا دی ہم نے |
اس کی ہستی کا ہی تھے ہم نقطہ |
دیکھ لی موت کی وادی ہم نے |
دیکھ کر تجھ کو ہی تو ہر جانب |
کر لیا آنکھوں کو عادی ہم نے |
آئینہ سامنے کر کے طارِقؔ |
سب حقیقت تھی دِکھا دی ہم نے |
معلومات