جانے کس کس کو دعا دی ہم نے
جب ترے در پہ صدا دی ہم نے
جب کبھی یاد تری آئی ہے
رات آنکھوں میں بِتا دی ہم نے
لوگ عادی ہوئے ہیں ظلمت کے
ہے گِلہ شمع جلا دی ہم نے
آگ میں اپنی ہی وہ جلتے ہیں
اور کہتے ہیں ہوا دی ہم نے
چُور زخموں سے ہوا ذہن مگر
مرہمِ صبر لگا دی ہم نے
تھے بلا نوش وہ جو ہاتھ آئی
مئے عرفان پلا دی ہم نے
اس کی ہستی کا ہی تھے ہم نقطہ
دیکھ لی موت کی وادی ہم نے
دیکھ کر تجھ کو ہی تو ہر جانب
کر لیا آنکھوں کو عادی ہم نے
آئینہ سامنے کر کے طارِقؔ
سب حقیقت تھی دِکھا دی ہم نے

0
12